حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مجلس علماء امامیہ جموں وکشمیر نے سرکار کی جانب سے خود ساختہ اور مشترکہ وقف بورڈ بنانےکے منصوبے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقف، اسلامی قانون کا ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے جسے فقہی اور شرعی قوانین کے تحت ہی منظم کیا جانا چاہئے۔
شیعہ اوقاف کے معاملے پر غور و خوض کرنے کی غرض سے سرینگر میں مجلس علماء امامیہ کا ایک اہم اجلاس حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ غلام رسول نوری صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کہا گیا کہ اوقاف کی املاک کو اسلامی تعلیمات خصوصاً احکامِ وقف سے ناواقف افراد کے سپرد کرنا انتہائی افسوسناک اور تشویشناک عمل ہے جبکہ وقف کے قواعد و قوانین اور تصرف اسلامی کے احکام کو ماہر علماء کرام ہی جانتے ہیں لہذا وقف کی دیکھ بال اور استعمال ان ہی کا فریضہ ہے اور سرکار کو اس بارے میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہئے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ علماء کرام کو اعتماد میں لئے بغیر من مرضی کے مطابق وقف بورڈ تشکیل دینا غیر اخلاقی، غیر شرعی اور مداخلت فی الدین ہے اور مسلمانان کشمیر بالخصوص شیعیان کشمیر کسی بھی صورت میں سرکار کے اس عمل کو قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی اس غیر شرعی اور غیر قانونی عمل کو برداشت کریں گے۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ شیعہ فقہ میں وقف سے متعلق منفرد اور مخصوص احکام و مسائل ہیں اور یہ احکام دین اسلام کے دوسرے مکتب ہائے فکر سے مختلف بھی ہے لہذا مشترکہ وقف بورڈ کی تشکیل سے پیچیدہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
مجلس علماء جو شیعیان کشمیر کے خیالات، جذبات اور افکار کا نمائندہ فورم ہے، یہ بات واضح کرتا ہے کہ حکام اگر کشمیر میں وقف املاک کو منظم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے کشمیر کے مسلک اہل تشیع سے وابستہ علماء سے اس معاملہ میں شرعی جانکاری حاصل کرکے ہی کوئی ایسا قدم اٹھانا چاہیے جو شریعت کی حدود اور شریعت ایکٹ 1937 عیسوی کے مطابق ہو تاکہ ہر لحاظ خصوصا فقہی اعتبار سے درپیش رکاوٹوں، مشکلات اور امتناعات شرعی سے بچا جاسکے۔